آلو کی آپ بیتی - نظم



مٹی میں میں چین کی نیند سو جاتا تھا
 خوابوں میں چاند کو ہوکر آتا تھا

 بھائی بہن چمٹتے میری بھی شان تھی
 سانس لیتا تھا مجھ میں بھی جان تھی

 ایک مدت تک جس کسان نے مجھ کو پالا تھا
 اس نے ہی ایک دن مجھے کھود ڈالا تھا

 ما در زمیں سے نکالا گیا تھا میں
 بورے میں بھر کے اچھالا گیا تھا میں

 کچھ آلو میرے نیچے کچھ کا مجھ پر بھار
 منڈی میں پھر لگایا گیا انبار

 اٹھا کر لے گیا پھر مجھے ایک بیوپاری
 صورت سے ٹپکتی تھی جس کے مکاری

  بہت تھے ریڑی پر اس کے پڑے آلو
گول آلو، تازے آلو اور سڑے آلو

 پھر ایک بیگم نے دیکھا ٹٹول کر مجھے 
آخر خریدا بڑا تول مول کر مجھے 

 کھولتے پانی میں مجھ کو ڈالاگیا
 تڑپتا رہا میں  ، مجھے جو ابالا گیا 

 انسانیت سے اٹھ گیا ہے بھروسہ
 جب ہنس ہنس کر مجھے گیا پروسا

 دیکھ کر پلیٹ سب کی ٹپکنے لگی رال
 کاٹا گیا جگر میرا ادھیڑا گیا گال

 آواز کو میری منّے نے دبایا تھا 
سیٹھ نے بھی بے رحمی سے چبایا تھا

 بیگم بھی مجھے کھاکر شکم سیر  ہوئی
 کہنے لگی خدا کی خیر ہوئی

 خوفناک انجام کو پہنچا قصہ پاک ہوا 
خاک سے نکلا تھا میں آخر خاک ہوا

  خود فنا ہوکر دل صاف رکھو
 یہی جینا ہے تو مجھ کو معاف رکھو


شاعر: ڈاکٹر جوائے





Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

How to shoot in night with mobile android phone (Photography Tips)